Home Diseases and Disorders گردے کی پتھری کے 6 علاج، اس کی علامات اور وجوہات

گردے کی پتھری کے 6 علاج، اس کی علامات اور وجوہات

gurday ki pathri ka ilaaj
Spread the love

آج کل گردے کی پتھری ایک عام مسئلہ بن چکی ہے جس کا سامنا کسی کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ پتھری کیلشیم کے کنکروں سے ملتی جلتی ہے جو گردوں کے ٹھیک کام نہ کرنے کی وجہ سے ان میں جمع ہوتی رہتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ پتھری لمبے عرصے تک گردے کے کسی حصے میں موجود رہے لیکن جب یہ اپنی جگہ چھوڑ کر خارج ہوتی ہے تو نہایت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پتھری گردوں سے ٹوٹ کر مثانے تک آتی ہے اور بالآخر پیشاب کی نالی کے ذریعے خارج ہوتی ہے۔ جب کہ پتھری کو باہر نکالنے کے لیے سرجری کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ گردے کی پتھری کی علامات نہ صرف لمبے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں بلکہ مریض کو بھی شدید درد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

گردے کی پتھری کی علامات

گردوں میں بننے والی پتھری کی علامات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں۔
پیشاب میں خون آنا –
قے –
متلی –
بار بار پیشاب آنا –
پیشاب سے بہت زیادہ بو آنا –
پیشاب بہت کم مقدار میں آنا –
بخار –
پسلیوں کے نیچے اور پیچھے کی جانب شدید درد –
براؤن، گلابی، یا سرخ پیشاب –
پیٹ کے نیچے درد –
پیشاب کرتے ہوئے تکلیف یا جلن کا سامنا –
یہ علامات گردوں میں بننے والی چار اقسام کی پتھریوں کی ہو سکتی ہیں۔

گردوں کی پتھری کی اقسام

گردوں کی پتھری کی چار اقسام ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

سسٹائن اسٹونز

پتھری کی یہ قسم بہت کم افراد میں پائی جاتی ہے۔ اس پتھری کی بنیادی وجہ موروثی بیماری ہوتی ہے جسے سسٹائن یوریا کہا جاتا ہے۔ سسٹائن در اصل غیر ضروری امائنو ایسڈ ہوتے ہیں۔ یہ پتھری زیادہ تر بچوں اور نوجوانوں میں بنتی ہے۔

یورک ایسڈ اسٹونز

یورک ایسڈ اسٹونز (پتھریاں) ایسے افراد میں بنتی ہیں جو ڈائیریا کی وجہ سے بہت زیادہ پانی خارج کر دیتے ہیں۔ ایسے افراد جن کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہو یا جو بہت زیادہ پروٹین والی غذائیں کھا رہے ہوں، ان میں بھی یہ پتھری بن سکتی ہے۔ کچھ جینیاتی مسائل بھی اس پتھری کے خطرات بڑھا سکتے ہیں۔

کیلشیم اسٹونز

زیادہ تر افراد کو اس پتھری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پتھری کی سب سے بڑی وجہ پیشاب میں کیلشیم کی مقدار بڑھ جانا ہے۔ گردوں میں یہ پتھری کیلشیم فاسفیٹ اور کیلشیم آکسلیٹ کی صورت میں بنتی ہے۔ آکسلیٹ ایک مادہ ہے جو ہر روز جگر بناتا ہے۔ کچھ پھلوں، خشک میوہ جات، اور چاکلیٹ میں آکسلیٹ پایا جاتا ہے۔

اسٹرووائٹ اسٹونز

پتھری کی اس قسم کو انفیکشن اسٹون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹون میگنیشیم، کیلشیم، اور امونیم فاسفیٹ سے مل کر بنتا ہے جو گردوں میں انفیکشن کی وجہ سے بھی بن سکتا ہے۔ جب یہ اسٹون گردوں میں بڑھتا ہے تو محسوس نہیں ہوتا اور مریض صرف ہلکا ہلکا درد محسوس کرتا ہے۔
پتھری کی یہ چار اقسام کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ ان اقسام کی  علامات کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔

گردے کی پتھری کی وجوہات

گردے میں پتھری بننے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں۔

گوشت کا زیادہ استعمال

مرغی اور سرخ گوشت کا زیادہ استعمال پتھری کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ کچھ طبی تحقیقات کے مطابق ایسے افراد میں پتھری کے خطرات ہوتے ہیں جو گوشت کم کھاتے ہیں۔

نمک کا زیادہ استعمال

روزمرہ کی غذا میں نمک زیادہ استعمال کرنے سے کیلشیم گردوں میں اکھٹی ہونے لگتی ہے جس سے گردوں میں پتھری بننے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر آپ بلڈ پریشر کا سامنا نہیں کر رہے تو روزانہ 2300 ملی گرام تک نمک استعمال کر سکتے ہیں جب کہ بلڈ پریشر کی صورت میں 1500 ملی گرام سے زیادہ نمک استعمال مت کریں۔

کیلشیم کا بہت کم استعمال

یہ بات درست ہے کہ گردوں میں پتھری کیلشیم کی وجہ سے ہی بنتی ہے مگر کیلشیم کا استعمال بالکل ترک کر دینا بھی عقل مندی نہیں۔  جو لوگ ہر روز مطلوبہ مقدار میں کیلشیم حاصل کرتے ہیں ان میں پتھری بننے کے چانسز کم ہوتے ہیں۔ اگر روز مرہ کی غذا میں کیلشیم کی کمی ہو گی تو دوسرے کیمیکل کیلشیم کے ساتھ مل کر پتھری بننے کے خطرے کو بڑھا دیں گے۔

آنتوں کے امراض

آنتوں کے مختلف امراض بھی پتھری بننے کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنتوں کے مرض میں مبتلا زیادہ تر افراد کو ہیضہ لاحق ہو جاتا ہے جس سے ان کے جسم میں پانی کی کمی ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں پتھری کا باعث بننے والے کیمیکلز کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔

سافٹ ڈرنکس کا استعمال

جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا پتھری بننے کے خطرات کو کم کرتا ہے۔ کچھ لوگ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سافٹ ڈرنکس یا میٹھے مشروبات کا استعمال کرتے ہیں جس سے نہ صرف پانی کی کمی پوری نہیں ہوتی بلکہ پتھری بننے خطرات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ترش پھلوں کا کم استعمال

مالٹے، گریپ فروٹس، اور لیموں میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو پتھری کے خطرات کو کم کرتے ہیں۔ لیموں کا روزانہ استعمال پتھری کی وجہ بننے والے کیمیکلز کی تعداد میں کمی کرتا ہے۔
یہ تمام وجوہات گردے کی پتھری کی علامات کے خطرات بڑھا سکتی ہیں۔ لیکن کچھ غذاؤں کے استعمال اور گھریلو ٹوٹکوں کی مدد سے بھی اس سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

گردے کی پتھری کا علاج

گردے کی پتھری کا سامنا کرنے کی صورت میں ان غذاؤں کے باقاعدگی سے استعمال سے اس کی علامات میں فاقہ محسوس ہو سکتا ہے۔

تربوز

تربوز میں پوٹاشیم وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے جو پیشاب کی تیزابیت کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں پانی کی بھی اچھی خاصی مقدار مقدار موجود ہوتی ہے جس جسم کو ڈی ہائڈریٹ نہیں ہونے دیتی۔ اس کے استعمال کو یقینی بنا کر پتھری کے خطرات کم کیے جا سکتے ہیں۔

مشروبات کا استعمال

ایسے افراد جو گردے کی پتھری کی علامات سے بچنا چاہتے ہوں یا اس سے چھٹکارا پانے چاہتے ہوں ، ان کو پانی زیادہ استعمال کرنا چاہیئے تا کہ پیشاب کے ذریعے پتھری خارج ہو سکے یا اس کے خطرات کم ہو سکیں۔ پانی کے ساتھ پھلوں کے جوسز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں لیکن سافٹ ڈرنکس استعمال کرنے سے گریز کریں۔

لیموں کا استعمال

لیموں میں سٹرک ایسڈ وافر مقدار میں پایا جاتا ہےجو گردوں کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس میں سائٹریٹ بھی پایا جاتا ہے جو پتھری بننے کے چانسز کو کم کرتا ہے۔

سیب کا  سرکہ

سیب کے سرکے میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو غیر ضروری ٹاکسن نکالنے میں مدد دیتے ہیں اور اس میں موجود سٹرک ایسڈ بھی پتھری نہیں بننے دیتا۔

لوبیے کا استعمال

لوبیے میں وٹامن بی، ریشہ، اور بہت سے منرلز پائے جاتے ہیں جو گردوں کی صفائی میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ  یہ اجزاء  پیشاب کی نالی کو بھی بہتر کرتے ہیں۔ لوبیے کو ابال کر یا پکا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

خشخاش کا استعمال

پوٹاشیم گردوں کی صحت بہتر بنانے کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پوٹاشیم کی مطلوبہ مقدار خشخاش سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق روزانہ خشخاش استعمال کرنے سے گردے کی پتھری سے بچا جا سکتا ہے۔گردے کی پتھری کے دوران ان غذاؤں کے استعمال سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس پتھری کے دوران کچھ پرہیز بھی لازمی کرنا ہوتی ہے۔ یہ پرہیز چائے، خشک میوہ جات، پالک، اسٹرابری، اور ایسے پھل اور سبزیاں جو نمکیات سے بھرپور ہوں، سے لازم ہوتی ہے۔اگر گردے میں پتھری کی علامات گھریلو علاج پر عمل کرنے اور احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی بہتر نہ ہوں تو آپ کو کسی ماہرِ امراض سے رابطہ کرنا کرنا ہو گا۔ کسی بھی ماہر معالج سے رابطہ کرنے کے لیے آپ آسانی کے ساتھ ہیلتھ وائر کا پلیٹ فارم استعمال کر سکتے ہیں۔

Related Posts

Leave a Comment